16 دسمبر، 2014

معصوم بچوں کا قتل عام اور سوشل میڈیا

بچے تو سب کے پھولوں جیسے نازک ہوتے ہیں۔ اسے بھی ویسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے آپ کے بچے کو۔۔۔۔پھر کیسے کوئی مارگیا ان معصوم بچوں کو۔۔۔۔ اندھا دھن قتل عام۔۔۔۔۔کیسی سفاکیت اور بربریت  ہے۔۔۔۔
یہ کیسی جنگ ہے جس میں بچے بھی محفوظ نہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے ایسا قتل عام تین بار دیکھا۔۔۔۔ایک بار اسلام آباد کچہری میں۔۔۔۔پھر واہگہ بارڈر۔۔۔۔۔۔۔اور آرمی پبلک اسکول۔ ان تینوں کاروائیوں کا انداز بالکل ایک جیسا ہے اور ایک بات تینوں میں مشترک ہے کہ مارنے والوں نے نہ کسی کا مذہب دیکھا نہ نظریہ۔۔۔بس قتل عام۔۔۔جیسے ان کے سوا کوئی مسلمان ہی نہ ہو۔ 
 پچھلے دو واقعات میں عمر خراسانی کا نام آیا تھا۔۔۔اور اس بار بھی عمرخراسانی کا ہی نام آرہا ہے۔ 
ہمیشہ کی طرح اس سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں شدید ترین مذمت کی جارہی ہے وہیں۔۔۔کچھ عاقبت نا اندیش لوگ اپنے تئیں جواز گھڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
حمائیت کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ کس کی حمایت کررہے ہیں۔۔۔آپ ایسے لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں جو معصوم لوگوں کے قتل میں ملوث ہیں تو جان لیں کے یہ کتنا شدید گناہ ہے۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے قتل میں تمام اہل ارض و سما بھی شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا (طبرانی، ۵۶۵)
آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے قتل عام کا کوئی جواز کوئی دلیل قابل قبول نہیں۔ سوشل میڈیا پرسوچے سمجھے بغیر بولنے والوں سے گذارش ہے کہ خدا کے لیے اپنے منہ سے کچھ نکالنے سے پہلے دین کا علم حاصل کیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی معصوم لوگوں کے قتل میں شریک ہوجائیں اور اللہ کے غضب کے مستحق ٹھیریں۔

1 تبصرہ:

  1. میں کئی سال قبل یہ اظہارِ خیال کر چکا ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہلاتے ہیں ان کا تعلق آزادی یا مذہب کے شیدائیوں سے جوڑنا بالکل غلط ہے ۔
    یہ لوگ کرائے کے قاتل ہیں ۔
    ان میں سے زیادہ تر کسی دینی مدرسہ کے طالبعلم نہیں رہے اور جو کبھی تھے وہ منحرف ہو چکے ہیں ۔ ان لوگوں میں زیادہ تر پاکستان اور دوسرے ممالک کے شہروں کے رہنے والے ہیں ۔
    نہ ہی ان کا تعلق افغانستان کے اُن لوگوں سے ہے جن کو طالبان کا نام دیا گیا تھا ۔ ایک پرانی اور ایک کل کی مثال سامنے ہے ۔ جب ٹی ٹی پی نے پاکستان کی سکیوریٹی فورسز پر حملے شروع کئے تو افغانستان کے مُلا عمر کے ترجمان نے اس کی مذمت کی اور اُنہیں منع کیا تھا ۔ کل افغانستان کے طالبان کا بیان شائع ہوا تھا کہ ”اسلام میں بچوں پر حملہ کی اجازت نہیں ہے“۔

    جواب دیںحذف کریں