24 مارچ، 2013

گوگل ہینگ آوٹ کی دوسری ملاقات

گوگل ہینگ آوٹ کی دوسری ملاقات مجھے تو بہت زبردست لگی۔ سب ہی بہت پر جوش تھے۔  یہاں ملاقات کی روداد کے بجائے کچھ دوستوں کا تعارف نئے  اور ہلکے پھلکے انداز میں اس امید کے ساتھ کے  یہ دوست ہرگز بھی برا نہیں مانیں گے۔
یہ ہیں صفدر بھائی۔ ان کی ہنسی بہت پیاری ہے۔ بلاگرز گروپ کو ٹھیک ٹھاک ٹائم دیتے ہیں مگر  کوئی یہ نہ سمجھے کہ فارغ ہیں۔  یہ وکالت کا ’’پیشہ‘‘ بھی کرتے ہیں ۔
یہ ہیں عثمان لطیف۔ بڑی بڑی آنکھوں والے۔ بولتے بھی خوب ہیں۔ ان سے اگر پوچھیں کہ پاکستان کس نے بنایا تو کہیں گے گوگل نے۔ یار دوستوں نے جب بھی موضوع بدلا یہ آخر میں تمام مسائل کا حل گوگل کو قرار دیتے تھے۔
میں پچھلے 26 سال سے جاپان میں ہوں۔ جی جناب بالکل ٹھیک سمجھے یہ ہیں یاسر جاپانی۔ گوگل ہینگ آوٹ میں شرکت کے لیے پلاؤ کھا کر آئے تھے۔ گوشت کس کا تھا ؟؟؟۔۔۔ یہ بتانے سے انکاری ہوگئے۔ خمار سے مجبور ہوکر جلد ہی سونے چلے گئے۔
الف نظامی صاحب۔ کافی سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہیں۔ اختیاری سنجیدگی ہے یا اضطراری کچھ کہہ نہیں سکتے۔ شروع سے ہمارے ساتھ رہے۔ موضوع چاہے کوئی بھی رہا ہو یہ ہر بار  اچانک پوچھتے کہ آخر سماج کو کیسے بہتر بنائیں غالباً باقی سوالات والے کاغذ کہیں رہ گئے تھے۔ عمر بتانے میں کنجوسی کر جاتے ہیں۔
ہر دل عزیز بلال بھائی۔بہت سادہ مزاج ہیں۔ اپنی جوانی (ابھی بھی جوان ہیں)کے قصے سناتے ہیں تو ہمیں اپنا بچپن یاد آجاتا ہے۔یہ بڑے کارناموں کے چکر میں چھوٹے کاموں کو نہیں چھوڑتے۔ ان کی اسی محنت نے انکو ہر دل عزیز بنایا ہے۔
ان سے ملیے یہ خاور بھائی ہیں۔ مجھے ذرا جھگڑالو مزاج کے لگتے تھے۔ کل ملاقات ہوئی تو بہت اچھے لگے۔  گفتگو  میں مہارت رکھتے ہیں۔ سامنے والے کی بات  بھی تحمل سے سنتے ہیں۔  بولڈ ہیں سیاست دانوں کی طرح  اپنے  ’’اثاثہ جات‘‘ ظاہر کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔  یقین نہ  آئے تو یہاں کلک کر کے دیکھ لیں۔
بہت سمجھ دار۔ جی ہاں نجیب پردیسی صاحب۔ عمدہ شخصیت کے مالک۔ بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت کے حامل۔ کل صوفے پر اس طرح لیٹے  ہمیں دیکھ رہے تھے جیسے  بلاگرز کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو رہا ہو۔  زیادہ وقت خاموشی سے سنتے رہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ الیکشن قریب ہیں اس صورتحال میں بلاگرز  کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اور یہ ہیں جعفر بھائی۔ بلاشبہ جتنا اچھا انکا طرز تحریر ہے اتنی ہی اچھی انکی آواز ہے۔  جب تک اردو میں بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے  جیسے مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں یا کوئل کوک رہی ہو۔
جعفر اور ڈفر کے یہاں کثرت سے ایک اصطلاح ملتی ہے ’’رنڈی رونا‘‘۔   عجیب بات ہے۔۔۔ کام بھی لو پیسے بھی نہ دو ۔۔۔اوپر سے بلاگ پر واویلا مچا دو کہ روتی ہے۔ آخر کیا کرے وہ۔ یقین کریں ایک بار دونوں خود کو اسکی جگہ رکھ کر سوچیں تو۔۔۔۔۔۔انکا اپنا رونا بھی نکل آئے گا۔

نوٹ:اس تحریر سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔

13 تبصرے:

  1. ہاہاہا بہت خوب بہت خوب.شکریہ ہمیں بهی ملادیا ان بهائیوں سے

    جواب دیںحذف کریں
  2. واہ جی واہ اتنی بھرپور محفل تھی؟؟؟ جو میں "مس" کر گیا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. مندر میں گھنٹیاں؟ کونسے مندر کی گھنٹیوں کی آواز سنی ھے جی آپ نے؟
    :)
    اپنا ٹیمپلیٹ ذرا سادہ کریں۔ کمنٹ والا خانہ بڑی مشکل سے ڈھونڈا ھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. لو جی آپ کو ہماری ہنسی اچحی لگی !! کر لو گل
    سب سے پہلے نمبر پر ہمارا ذکر کرنے کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. اسکی جگہ رکھ کے کیا سوچنا جی میں تو اسکی جگہ "بیٹھ" کے لکھوں
    :D

    جواب دیںحذف کریں
  6. عامر ملک صاحب بہت خوب لکھا ہے۔ جیسی گفتگو اس ہینگ آوٹ میں کی ،تو تحریر اسکے بالکل برعکس مزاحیہ ہے۔
    پڑھ کر مزہ آگیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. تحریر کچھ زیادہ ہی مختصر لگی!۔
    تفصہل سے لکھیں
    کہ اج جو احساسات ہیں اپ کے کل نہیں ہون گے
    کہ وقت یادوں کو دھندلا دیتا ہے
    لیکن تحریر میں یادیں زندہ جاوید ہو جائی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. یہاں آپ کا تعارف تو ہے ہی نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  9. آپ سب کی آمد اور تبصروں کے لیے شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. میں بھی گھومتے گھامتے یہاں آنکلا چلیں پھر میرا بھی شکریہ ادا کر دیجئے

    جواب دیںحذف کریں
  11. روزانہ پاکستان میں تازہ ترین ملازمتوں اور ایک کلک پر سادہ ملازمتوں پر لاگو ہوتے ہیں حاصل کریں.
    ہیلو وہاں ہمارے لئے اس کے واقعی اتنا مؤثر اور معلوماتی مراسلہ اس مضمون میں حل کے بہت سے ہمارے ساتھ اشتراک کرنے کے لئے اسے اپ کر شکر رکھنے کی وجہ سے.

    جواب دیںحذف کریں