2 ستمبر، 2016

حالات میں بہتری


جب سے کراچی کے حالات تبدیل ہوئے ہیں طرح طرح کے تجزیے دیکھنے سننے میں آرہے ہیں۔
کچھ کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن اور الطاف حسین کے خلاف سخت زبان استعمال کرکے الطاف حسین کی ہی مرضی کے مطابق ہم حالات خراب کر رہے ہیں۔
خکراجبکہ میرا خیال ہے کہ اس بار فوج اور ریجنرز بہتر حکمت عملی کے سااتھ میدان میں اترے ہیں۔ یہ صرف قیاس نہیں ہے بلکہ کچھ عرصے سے ان اداروں کی کار کردگی ہے۔ چاہے وہ سعودیہ کو اپنی فوج دینے سے انکار ہو، انڈیا کے ساتھ دو ٹوک موقف ہو شدت پسند عناصر کے خلاف کاروائی ہو۔ بحرحال ان تمام چیزوں کو نظر میں رکھیں تو ایک بات کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ پاکستان بہت تیزی سے بہتری کی جانب جارہا ہے۔ اور اس کا کریڈٹ بحرحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے۔
دشمن کبھی ہضم نہیں کرسکتا پاکستان کے حالات میں بہتری۔ اب اس کی کوشش ہوگی کسی نہ کسی طرح فوج اور رینجرز کے خلاف زہر اگلا جائے۔ پاکستان کو الجھایا جائے۔ آج راحیل شریف کا انڈیا کے لیے بیان اسی گرما گرمی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
ان شاء اللہ اب کہ یہ حربہ اتنی آسانی سے کام نہیں کرے گا۔ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے دوران عوام کا ردعمل قوم کے موڈ کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ الطاف حسین اور اسکے چیلے یقناً مہاجر کارڈ کھیل کر اردو بولنے والوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم پاکستان کی سالمیت اور افواج کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈے کا حصہ بننے سے نادانستگی میں بھی شکار ہونے سے بچیں کہ یہی ہماری دفاعی لائن ہے۔

18 جنوری، 2016

ریاست کا کام ریاست کو کرنے دیں

مجموعی طور پر ہمارا مزاج ایسا ہوچکا ہے کہ ہم خیر میں سے بھی شر نکال لیتے ہیں اور پھر تنقید کرکے اپنا من ہلکا کرتے ہیں۔
جیسے پنڈی اسلام آباد کی میٹرو پر تنقید۔ کبھی بارش کا پانی اور رستی ہوئی چھتوں کی جھوٹی تصاویر۔

اسلام آباد آیا تو میٹرو سسٹم اور اسکے اسٹاپ۔۔سب ہی بہترین لگے۔ ہاں اس پر کئی گنازیادہ بجٹ لگا اسے ضرور پکڑنا چاہیے اور کاروائی بھی ہونی چاہیے۔ مگر ضروری ہے اصل مرض کو ہی پکڑیں۔

اسی طرح فوج پر تنقید، کوئی شبہ نہیں فوج ایک ادارہ ہے اور انسانوں سمیت اداروں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور انہیں درست بھی کیا جاتا ہے۔ مگر صرف غلطیاں ہی تو نہیں ہیں۔۔۔بہت کچھ ایسا ہے جو جمہوری حکومت کے کرنے کے کام ہوتے ہیں۔ جیسے خارجہ و داخلہ پالیسیاں۔۔۔اب یہ سیاسی سیٹ اپ انہیں بنانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے صرف مال بنانے سے دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر یہ پالیسیاں کون بنائے؟؟؟ پھر قانون نافظ کرنے والے ادارے ہی یہ ذمہ داری بھی سنبھالیں گے۔

اس بار راحیل شریف نے تو ثابت بھی کیا ہے۔ کافی حد تک دہشت گردی سے چھٹکارا نصیب ہوا۔ زمینی حقائق تو یہی ظاہر کرتے ہیں ورنہ ایک وقت تو ایسا بھی آیا تھا کہ کسی مارکیٹ یا ہسپتال جاتے تو معلوم ہی نا ہوتا واپس پورے بھی آئیں گے کہ نہیں۔

ایسے ہی کراچی میں اسٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ کا نا رکنے والا سلسلہ تھا جس پر بریک انہیں قانون نافظ کرنے والے اداروں نے ہی لگائی۔ جبکہ ان جرائم کو روکنے کی حکمت عملی بنانا اور عمل کروانا سندھ حکومت کا کام تھا۔ مگر الٹا حکومت اس آپریشن سے خائف ہے۔ ظاہر ہے چور تو خوش ہونے سے رہے۔

ایسے ہی شدت پسندی ہے جسکا دائرہ دونوں اطراف سے پوری دنیا میں پھیلتا ہی جارہا ہے۔ کبھی فرانس شکار ہورہا ہے اور کبھی یورپ کا کوئی اور ملک۔
جہاد کے نام پر مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ آپس میں بھی اختلافات اور ایک دوسرے کو ایمان سے خارج سمجھنا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب اپنا مقام چھوڑ کر کسی اور کام میں دخل اندازی کی جائے۔
 پاکستان میں کوئی واقع ہوجائے تو ہمارے اداروں کی نااہلی پرتو  سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔۔۔یہ سوچے بغیر کہ ان حالات کا شکار پوری دنیا ہورہی ہے صرف پاکستان نہیں۔
پاکستان اللہ کے حکم سے اس گرداب سے ضرور نکلے گا مگر شرط یہ ہے کہ ہم جسکا جو کام ہے اسے وہ کام کرنے دیں۔ جو کام فوج کا ہے اسے فوج کو کرنے دیں اس میں اپنی انگلیاں نا توڑیں۔ ہرا ادارہ اپنا کام کرے۔ اور میں آپ اپنے اپنے شعبوں میں ایمانداری سے کام کرکے اپنے حصے کا فرض ادا کریں۔

23 دسمبر، 2014

وطن کی خدمت بے لوث ہے ہر شخص پر لازم

پشاور آرمی اسکول سانحے کے متوقع اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ 
ایک طرف دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن پوری طاقت سے شروع ہوچکا ہے ۔۔۔اور دوسری طرف رد عمل میں مزید دہشت گردی کا امکان ہے۔ پورے ملک میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔
بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ہم لوگ جلد دہشت گردی پر قابو پالیں گے۔۔۔لیکن شائد یہ اتنی جلد ممکن نہ ہو۔ 
اس آپریشن میں ممکنہ غلطیاں اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہیں کہ بحرحال ایسے آپریشنز جن میں دشمن سامنے نہ ہو ان میں ایسی غلطیاں ممکن ہیں۔ اس کے رد عمل میں کچھ طبقات میں غصہ پیدا ہوسکتا ہے اور کہیں رائے عامہ تبدیل ہوسکتی ہے۔
ہم دہشت گردی کے خلاف اس آپریشن کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں حکومتی سطح پر کچھ کام کرنے ہونگے۔
جیسے حکومت ایسی غلطیوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرے۔ تاکہ ایک ایسی ریاست کا تاثر ملے کہ ریاست عوام کی تکالیف سے لاتعلق نہیں ہے۔
اسی طرح عوام کے لیے عدالت سے جلدی انصاف کے حصول کو ممکن بنائے تاکہ لوگ ریاست سے مایوس نہ ہوں۔
فوری طور پر سستے پیڑول کے فوائد عوام تک زیادہ بہترانداز میں  پہنچائے تاکہ عوام ریاست سے مطمئن ہوسکیں۔

مگر کچھ کام ایسے ہیں جو میں اور آپ بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ اپنے بلاگز اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی ہے۔
مثلاً لوگوں میں  یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ریاست کے دفاع کا کام ریاستی ادارے ہی بہتر طور پر ادا کرسکتے ہیں۔
زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ افواج پاکستان واحد ادارہ باقی رہ گیا ہے جہاں نظم و ضبط باقی ہے اور پاکستان کی حفاظت کے معاملے میں کوئی کمپرو مائز نہیں کرتے۔ جنگ ہو یا قدرتی آفات۔۔۔واحد افواج پاکستان ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو ان سے نمبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کام کرتا بھی ہے۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا رائے عامہ بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ شدت پسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کریں۔ شدت پسندوں کو بہتر دلیل کے ساتھ کاؤنٹر کیا جائے۔
یہ ہمارا وطن ہے اور ہمیں اور آپ کو یہیں رہنا ہے تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام کریں۔

16 دسمبر، 2014

معصوم بچوں کا قتل عام اور سوشل میڈیا

بچے تو سب کے پھولوں جیسے نازک ہوتے ہیں۔ اسے بھی ویسی ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے آپ کے بچے کو۔۔۔۔پھر کیسے کوئی مارگیا ان معصوم بچوں کو۔۔۔۔ اندھا دھن قتل عام۔۔۔۔۔کیسی سفاکیت اور بربریت  ہے۔۔۔۔
یہ کیسی جنگ ہے جس میں بچے بھی محفوظ نہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے ایسا قتل عام تین بار دیکھا۔۔۔۔ایک بار اسلام آباد کچہری میں۔۔۔۔پھر واہگہ بارڈر۔۔۔۔۔۔۔اور آرمی پبلک اسکول۔ ان تینوں کاروائیوں کا انداز بالکل ایک جیسا ہے اور ایک بات تینوں میں مشترک ہے کہ مارنے والوں نے نہ کسی کا مذہب دیکھا نہ نظریہ۔۔۔بس قتل عام۔۔۔جیسے ان کے سوا کوئی مسلمان ہی نہ ہو۔ 
 پچھلے دو واقعات میں عمر خراسانی کا نام آیا تھا۔۔۔اور اس بار بھی عمرخراسانی کا ہی نام آرہا ہے۔ 
ہمیشہ کی طرح اس سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں شدید ترین مذمت کی جارہی ہے وہیں۔۔۔کچھ عاقبت نا اندیش لوگ اپنے تئیں جواز گھڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
حمائیت کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ کس کی حمایت کررہے ہیں۔۔۔آپ ایسے لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں جو معصوم لوگوں کے قتل میں ملوث ہیں تو جان لیں کے یہ کتنا شدید گناہ ہے۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے قتل میں تمام اہل ارض و سما بھی شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا (طبرانی، ۵۶۵)
آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے قتل عام کا کوئی جواز کوئی دلیل قابل قبول نہیں۔ سوشل میڈیا پرسوچے سمجھے بغیر بولنے والوں سے گذارش ہے کہ خدا کے لیے اپنے منہ سے کچھ نکالنے سے پہلے دین کا علم حاصل کیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی معصوم لوگوں کے قتل میں شریک ہوجائیں اور اللہ کے غضب کے مستحق ٹھیریں۔

10 دسمبر، 2014

جمہوریت کا حسن

جمہوریت کی طاقت ملاحضہ کیجئے۔۔۔۔کیسے نابینا افراد کو سڑکوں پر مارا پیٹا گیا۔۔۔۔۔۔۔فیصل آباد میں قاتلوں کے چہروں کی فوٹیج پوری دنیا نے دیکھ لی۔۔۔مگر جمہوریت کی نرم دلی دیکھیے کیسے چشم پوشی سے کام لے رہی ہے۔
جمہوریت کا حسن دیکھیے۔۔۔جمہیوریت کو مظبوط بنانے کے لیے۔۔۔۔لاہور میں عام افراد کا قتل عام کیا گیا۔۔۔۔لیکن کسی نے چوں تک نہ کی۔۔۔۔۔صرف جمہوریت کو محفوظ بنانے کے لیے۔۔
سیاسی اشرافیہ کو دیکھیے۔۔۔انہیں حالات کی نزاکت کا احساس ہے اور نہ ہی پاکستان کی عزت کا پاس۔ اپنے سیاسی مفادات کے لیے کسی کو بھی مروا سکتے ہیں۔ کسی بھی فورم پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ 
جانے کیوں دل چاہتا ہے کہ جو لوگ بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے کا نعرہ لگاتے ہیں ان سے پوچھوں کہ ذرا زمینی حقائق تو دیکھیے۔۔۔۔۔۔کس فوجی حکومت نے نابینا افراد کو سڑکوں پر مارا پیٹا؟ کس نے یوں قتل عام کیا؟ کس نے پاکستانی کی عزت سے کھلواڑ کیا؟
حقائق تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ بدترین جمہوریت یقناً آمریت سے بہتر ہے مگر صرف سیاست دانوں کے لیے۔۔۔کہ فوجی حکومت میں انہیں کھانے کا موقع نہیں مل سکتا۔
میں مارشل کی چاہ نہیں رکھتا۔۔۔۔مگر دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ عوام کے لیے بدترین لوگ کون ثابت ہوئے ہیں جمہوریت کے راگ الاپنے والی سیاسی اشرافیہ یا آمر؟




12 جولائی، 2014

اسمارٹ فون اردو سانچہ

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انٹر نیٹ استعال کرنے کے لیے اسمارٹ فون اور ٹیب کا استعمال بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ صرف پاکستان میں ہی 2014 کے اختتام تک 85 فیصد ٹریفک اسمارٹ فون سے آئے گا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بلاگ جدید اسمارٹ فونز  سے ہم آہنگ ہو اور آپ زیادہ سے زیادہ ٹریفک حاصل کرسکیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بلاگ کی تھیم کو اپ گریڈ کریں یا ایسی تھیم استعمال کریں جو اسمارٹ ڈیوائسز کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی ہوں۔

ایسی ویب سائٹ جو پی سی، ٹیب اور اسمارٹ فون کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہوں ان کے لیے  Responsive کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

عموماً نئی تھیم Responsive  ہی آرہی ہیں۔

ان ہی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے  بلاگ اسپاٹ/بلاگر کے لیے ایک سادہ مگر دلکش تھیم پیش خدمت ہے۔


 تھیم ڈاونلوڈ کیجئے

نمایاں خصوصیات:

سادہ اور پڑھنے میں آسان ہے۔
اسمارٹ فون، ٹیب اور پی سی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔
کم سائز اور لوڈ ہونے میں کم ریسورسز استعمال کرنے کی وجہ سے کم بیٹری خرچ کرتی ہے۔

اگر آپ تھوڑی بہت ایچ ٹی ایم ایل کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں تو رنگوں سے لیکر لے آوٹ تک بہت کچھ تبدیل کرسکتے ہیں۔

اسمارٹ فون اردو سانچہ یہاں سے ڈاونلوڈ کیجئے


تھیم کے رنگ، فونٹ یا کسی چیز میں تبدیلی کروانا چاہتے ہوں تو فیس بک پر رابطہ کریں۔


9 اگست، 2013

ان کے لیے جو ضرورت مند ہیں

سماج میں تبدیلی کے لیے سونامی ہونا ضروری ہے؟ یا شیر جیسے اختیارات کا ہونا ضروری ہے؟
ہر گز نہیں۔ بس اک درد مند دل کا ہونا ضروری ہے۔ 
اس عید پر اپنے حصے کا کام سوچیے اور مسلسل عمل کے طور پر کرنا شروع کردیجیے۔ بدلے میں اپنے رب کریم کی رحمت کے حق دار بن جایے۔
عید مبارک